السلام علیکم! میرے دادا کے میرے والد سمیت پانچ بیٹے تھے،میرے دادا نے اپنی وفات سے قبل اپنی ساری جائیداد دادی کے نام پہ گفٹ ڈیڈ (ہبہ) کردی تھی، دادا کی وفات کے چند ماہ بعد میرے والد بھی وفات پاگئے ، اس کے بعد دادی نے وہ جائیداد مجھے اور میرے چار چچاؤ ں کو گفٹ ڈیڈ (ہبہ) کردی، پھر تقریباً پانچ سال بعد میں نے اس جائیداد میں سے اپنا حصہ تمام چچا ؤ ں کی رضامندی سے اپنی اہلیہ کو فروخت کردیا، اب دادی خاندان کے چند لوگوں کے اکسانے پر ہم پانچوں سے جائیداد واپس دینے کا مطالبہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آپ (پوتے) کا اس جائیداد میں حصہ نہیں بنتا ، واضح رہے کہ اب وہ جائیداد میری ملکیت میں نہیں ہے۔ براہ ِکرم وضاحت فرمائیں کیا واقعی میرا حصہ نہیں بنتا تھا ؟ اور کیا دادی کا یہ عمل و مطالبہ شرعاً درست ہے ؟ جزاکم اللہ خیراً
سائل کے دادا مرحوم نے اگر اپنی جائیداد بیوی کے فقط نام کی ہو ، باقاعدہ مالکانہ حقوق کے ساتھ ان کے حوالہ نہیں کی تھی ، تو دادی مذکور جائیداد کی مالک نہیں بنی ، اس لئے اس کو بنیاد بناکر سائل کی دادی کے مذکور تصرف کا بھی شرعاً کوئی اعتبار نہ ہوگا ، بلکہ مذکور جائیداد سائل کے دادا مرحوم کی ملکیت میں رہ کر اب انتقال کی صورت میں تمام ورثاء کے درمیان تقسیم کرنا شرعاً لازم ہے ، سائل کے والد کا انتقال چونکہ اپنے والد کے بعد ہوا ہے ، لہذا سائل کے مرحوم والد کو ملنے والا حصہ سائل سمیت دیگر بہن بھائیوں اور بیوہ میں حسب حصص شرعی تقسیم ہوگا ، بوقت ضرورت ورثاءکی مکمل تفصیل لکھ کر شرعی حکم معلوم کیا جا سکتا ہے ۔
كما في الدر المختار : (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والاصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا الخ ( كتاب الهبة، ج 5، ص 690، ط: سعيد)–
و في رد المحتار تحت قوله: (بالقبض) فيشترط القبض قبل الموت ولو كانت في مرض الموت للاجنبي كما سبق في كتاب الوقف.
كذا في الهامش. قوله: (بالقبض الكامل) وكل الموهوب له رجلين بقبض الدار فقبضاها جاز. خانية الخ ( كتاب الهبة، ج 5، ص 690، ط: سعيد )–
و فيه أيضا : تحت ( قولہ إلا أن یصطلحا ) إن شرط الإرث وجود الوارث حیا عند موت المورث الخ ( کتاب الفرائض ، ج 6، ص 769، ط: سعید)–