میں کینڈا میں رہتا ہوں ، اور آفس میں نماز پڑھتے ہیں، آفس کا ایک ساتھی احمدی ہے، و ہ ہمارے ساتھ نماز پڑھتا ہے، سوال یہ ہے کہ اس کو ہمارے ساتھ جماعت میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے ؟ اس کی نماز بھی ہماری نماز کی طرح ہے، میرے جذبات یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نماز کے ذریعے ہمیں اجر دیں ، میں وہ نہیں کہ کسی کو نماز پڑھنے سے روکوں ، برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمائیں۔
قادیانی خبیث العقائد کا فراور زندیق ہیں، ان کے ساتھ مسلمانوں والا معاملہ کرنا جس سے ان کی تعظیم ہو اور لوگوں کے دلوں سے ان کی حقارت نکلتی ہو ،شرعاً جائز نہیں، اس لۓ مذکور قادیانی کو اپنی جماعت میں شریک کرنا دیگر معاملات میں ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرنا شرعاً جائز نہیں، بلکہ گناہ ہے، جس سے احتراز لازم ہے، البتہ کسی موقع پر غیر ارادی طور پر اگر ایک دستر خوان پر بیٹھ کر ان کے ساتھ کھانا کھانا پڑ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، مگر اس کو معمول بنانے سے احتراز لازم ہے ، اسی طرح ان کے یہاں کسی ادارے میں ملازمت اختیار کرنے سے اپنے ایمان کو خطرہ لاحق ہو تو اس ملازمت کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ ملازمت اختیار کرنا لازم ہے۔
قوله تعالیٰ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُمْ مِنَ الْحَقِّ﴾ [الممتحنة: 1]
و فی خلاصة الفتاویٰ : المسلم اذا آجر نفسه من الكافر ليخدمه جاز و یکره ، قال الفصلیؒ لا يجوز في الخدمة و ما فيه إضلال بخلاف الزراعة و السقى اھ (۳/ ۱۴۹)۔
و فی الفتاوى الهندية : الأكل مع المجوسي و مع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا و حكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به و أما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط اھ (5/ 347)۔