رمضان المبارک میں ختمِ قرآن پر امام کو اجتماعی اور انفرادی طور پر جو نقد وغیرہ کا نذرانہ اور ہدیہ دیا جاتاہے، اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ تفصیل سے جواب مطلوب ہے، جبکہ اس کو تقریباً ۱۰ فتووں کی کتابوں میں حرام قرار دیا گیا ہے، واضح ہوکہ یہ کتابیں بطورِ سند استعمال کی جاتی ہیں۔
یہ لینا دینا اگر بطورِ اجرت، ختمِ قرآنِ کریم کے موقع پر معروف یا مشروط ہو تب تو ہر دو امور کا شرعاً کوئی جواز نہیں، لینے اور دینے سے احتراز لازم ہے۔
البتہ اگر کوئی قاری قرآن اس موقع پر لینے سے سختی کے ساتھ منع کردے اور پھر کوئی فرد یا افراد اپنے طور پر ختمِ قرآنِ کریم کے موقع سے پہلے یا کچھ ایام کے بعد یا اسی دن ہی بطورِ اکرام اُسے کچھ ہدیہ دیدے یا وہ قاری قرآن باضابطہ امام ہو اور وہ تراویح بھی پڑھادے تو اس کیلیے بھی اس لینے دینے کی اجازت ہے۔
ففي الفتاوی الشامية: تحت(ولا لاجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله - عليه الصلاة والسلام - «اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به» وفي آخر ما عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى عمرو بن العاص «وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا» ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة هداية اھ (۶/۵۵)۔
وفي ٳعلاء السنن للتھانوي: فان ٲعطی المعلم شیئا من غیر شرط فظاھر کلام ٲحمد جوازہ (وھو قولنا معشر الحنفية) (ٳلی قوله) ووجه الاول قول النبي ۔ صلی اللہ عليه وسلم ۔ ما اتاك من غیر ٳشراف نفس، ولا مسئلة فخذہ، وتموله، فانه رزق ساقه اللہ ٳلیك (ٳلی قوله)ولانه ٳذا کان بغیر شرط کان ھبة مجردة فجاز، کما لو لم یعلمه شیئا اھ (۱۶/۱۶۹)۔
وفي الدر المختار: (و)لا لاجل الطاعات (ٳلی قوله) ویفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن والفقه، والامامة، والاذان اھ (۲/۵۵) واللہ أعلم بالصواب!
مستقل امامِ مسجد جو تراویح میں ختمِ قرآن بحی کرے ،اسے کچھ زائد ہدیہ دینے کی جائز صورت/ داڑھی کو سیاہ رنگ لگانا
یونیکوڈ تراویح 0