کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام درجِ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد محمد اشفاق (مرحوم) ان کے پانچ بیٹے محمد افتخار ، محمد امتیاز مرحوم ، محمد فاروق ، جاوید اختر لئیق ، لئیق اختر) اور دو بیٹیاں ( نگہت، اور نزہت) اور والدہ بھی حیات ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم جس گھر میں رہتے ہیں اس گھر کو جب خریدا گیا، تو اس وقت میرے بھائی محمد امتیاز مرحوم نے ایک لاکھ پچپن ہزار (155000) اور میرے والد صاحب نے ساٹھ ہزار (60000) روپے ملا کر گھر خریدا، اور یہ گھر میرے بھائی محمد امتیاز کے نام پر ہی لیا گیا۔ اس کے بعد اس مکان کی تعمیر میں سب بھائیوں نے پیسے ملائے، جس میں محمد افتخار نے ایک لاکھ پچاس ہزار (150000) روپے جاوید اور لئیق دونوں نے ملاکر ایک لاکھ (100000) روپے ، اور محمد فاروق نے ایک لاکھ (100000) روپے دیے مکان کی تعمیر میں ، امتیاز مرحوم جو کہ میرے بھائی ہیں ان کی خواہش یہ تھی کہ سب بھائی مل کر ایک ساتھ رہیں ، اسی لئے جب کبھی مکان میں کسی تعمیرات کی ضرورت پڑی تو سب نے پیسے دیے۔
اب مسئلہ یہاں پر یہ ہے کہ محمد امتیاز مرحوم کی نا گہانی موت کے باعث یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس مکان میں شرعی طور پر کس کا کتنا حق ہے ؟ یادر ہے کہ مرحوم امتیاز کی بیوہ، دو بیٹیاں حیات ہیں، جبکہ والد صاحب پہلے انتقال کر چکے ہیں ، اور والد ہ اب بھی بقید حیات ہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ اس صورتِ حال میں شرعی طور پر اس مکان پر کس کا حق ہے ، اور سب کے کتنے حصے بنیں گے؟ اس کی بھی تفصیل بتادی جائے عین نوازش ہو گی۔
نوٹ : ( محمد افتخار ، محمد امتیاز مرحوم ، محمد فاروق ، جاوید اختر ، لئیق اختر نے پیسے خرچ کرتے وقت واپسی یا قرض کی کوئی صراحت نہیں کی، اور نہ ہی خرچ کی گئی رقم کی کوئی دستاویز ہے ، سب بھائیوں کا یہی ارادہ تھا کہ سب ساتھ ملکر رہیں گے ، اور مکان کی خرید و فروخت کے معاملات بھائی امتیاز مرحوم نے کیے ، کیونکہ والد صاحب ضعیف العمر تھے ، اس لئے انہوں نے بڑے بھائی ( امتیاز مرحوم) کو خرید و فروخت کے معاملات طے کرنے کا کہا۔
واضح ہو کہ مذکور مکان کی خریداری کے وقت جس بھائی نے جتنی رقم لگائی تھی ،وہ اتنی مقدار میں اس مکان شریک ہے ، اسی حساب سے اب مکان کی مالیت یا مکان کو تقسیم کیا جاسکتا ہے، جبکہ والد مرحوم اور امتیاز مرحوم کا حصہ میراث ہے ، وہ مرحومین کے تمام ورثاء میں حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم ہو گا، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سائل کے والد مرحوم اور بھائی امتیاز مرحوم کا ترکہ اصولِ میراث کے مطابق ان کے مذکور ور ثاء میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ مرحومین نے بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ، مال و جائیداد سونا، چاندی، زیورات ، نقد رقم اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھر یلو ساز و سامان اپنی ملکیت میں چھوڑا ہے ، اس میں سے سب سے پہلے مرحومین کے کفن دفن کے متوسط مصارف ادا کریں، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحومین کے ذمہ کچھ قرض واجب الاداء ہو یا مر حو مین نے بیوہ کا حق مہر ادا نہ کیا ہو اور انہوں نے معاف بھی نہ کیا ہو تو وہ بھی دین ہے اس کو بھی ادا کریں ، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے ایک تہائی (1/3) کی حد تک اس پر عمل کریں، اور اس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کے کل گیارہ ہزار پانچ سو بیس (11520) حصے کریں، جن میں سے ایک ہزار سات سو بیس (1720) حصے مرحوم محمد اشفاق کی بیوہ (سائل کی والدہ) کو ، اور مرحوم محمد اشفاق کے بیٹوں ( محمد افتخار ، محمد فاروق، جاوید اختر ، لئیق اختر ) میں سے ہر بیٹے کو ایک ہزار چھ سو چورانوے (1694) حصے ، اور مرحوم محمد اشفاق کی بیٹیوں ( نگہت، نزہت) میں سے ہر بیٹی کو آٹھ سو سنتالیس (847) حصے ، اور مرحوم محمد امتیاز کی بیوہ کو دو سو دس (210) حصے ، اور مرحوم محمد امتیاز کی بیٹیوں میں سے ہر بیٹی کو پانچ سو ساٹھ (560) حصے دے دیے جائیں ۔
کسی نے حصۂ میراث اپنی زندگی میں طلب نہ کیا ہو تو اس کے ورثاء کا اس کے حصے کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ احکام وراثت 1