کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم ایک بھائی اور دو بہنیں فاطمہ اور فرزانہ ہیں، ہمارے پاس ایک مکان ہے، اس کا رقبہ (۴۰ فٹ لمبائی، ۲۰ فٹ چوڑائی) ہے، اس جگہ کی کل قیمت ۷۵ لاکھ روپے ہیں، برائے مہربای راہ نمائی فرمائیں کہ کس کے حصے میں کتنی رقم اور جگہ کے بارے میں کتنا حصہ آئے گا؟
نوٹ: سائل سے زبانی طور پر معلوم ہوا کہ سائل کا ایک بڑا بھائی بھی تھا، جن کا انتقال پندرہ سال قبل سائل کے والد صاحب کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا، جبکہ سائل کی والدہ کا انتقال سائل کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا، اور والد کا انتقال چار سال قبل ہوا، مذکورہ مکان سائل کے والد مرحوم کا ترکہ ہے، اور مرحوم کے ورثاء میں فقط سائل اور اس کی دو بہنیں ہی حیات ہیں۔
سائل کے والد مرحوم کا ترکہ اصول میراث کے مطابق ان کے موجود ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرحوم نے بوقت انتقال جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ، سونا چاندی، نقد رقم اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھر یلو ساز و سامان اپنی ملکیت میں چھوڑا ہے، اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط مصارف ادا کریں ، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم کے ذمہ کچھ قرضہ واجب الاداء ہے ، تو وہ بھی ادا کریں، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے ایک تہائی (۳/۱) کی حد تک اس پر عمل کریں، اس کے بعد جو جو کچھ بچ جائے اس کے کل چار (۴) حصے بنائے جائیں، جن میں سے مرحوم کے بیٹے کو دو 2 حصے ، جبکہ مرحوم کی بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو ایک ایک (1) حصہ دیا جائے۔
کسی نے حصۂ میراث اپنی زندگی میں طلب نہ کیا ہو تو اس کے ورثاء کا اس کے حصے کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ احکام وراثت 1