محترم علماءِ کرام! السلام علیکم،
میرے والد دوست محمد مرحوم فوت ہوچکےہیں، انکی جائیداد میں ایک مکان ہے جس کی مکمل قیمت اڑسٹھ لاکھ(6800000)روپے بنتی ہے، ورثاء میں ایک بیوہ ڈیوابل، 4بیٹے: محمد ابراہیم، اکبرخان، عجب خان، اور آدم خان، اور دو بیٹیاں: مریم، اور جانا بخت چھوڑیں، مذکورہ رقم ان سات افراد میں تقسیم کرنی ہے، ایک بیٹے آدم خان کا والد مرحوم کی وفات کے بعد انتقال ہوگیا ہے، اس کاحق کیسے اداکریں؟ آدم خان کے ورثاء میں انکی ایک بیوہ اور ایک بیٹی ہے۔
سائل کے والدمرحوم کاترکہ اصول میراث کےمطابق ان کےمذکور ورثاءمیں اس طرح تقسیم ہوگاکہ مرحوم نے بوقتِ انتقال جوکچھ منقولہ وغیرمنقولہ مال وجائیداد،سونا،چاندی،نقدرقم اورہرقسم کاچھوٹابڑا گھریلوسازوسامان اپنی ملکیت میں چھوڑاہے،وہ ساراکاساراترکہ ہے،جس میں سےپہلےمرحوم کےکفن دفن کےمتوسط مصارف اداکریں،اس کےبعددیکھیں کہ مرحوم کےذمہ کچھ قرض واجب الادا ہویا بیوہ کا حق مہر ادا نہ کیا ہو تووہ اداکریں،اس کے بعددیکھیں کہ مرحوم نےکوئی جائزوصیت کی ہوتوبقیہ مال کے ایک تہائی (1/3)حصے کی حدتک اس پرعمل کریں،اس کے بعد جو کچھ بچ جائے، اس کے کل سات ہزار چھ سو اسی(7680)حصےبنائےجائیں، جن میں سےدوست محمد کی بیوہ کوایک ہزار ایک سو چوراسی(1184)حصے، ہر بیٹے کو ایک ہزار چار سو چودہ(1414)حصے، ہر بیٹی کو سات سو سات(707)حصے، اور بیوہ آدم خان کو ایک سو اڑسٹھ(168) حصے،اور بیٹی کو چھ سو بہتر(172) حصے دیدیے جائیں -