 
                    کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص کا انتقال ہوگیا ،اس کے ورثاء میں والدین, دو بیوہ ،دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں ،جبکہ مرحوم کی پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ،البتہ پہلی بیوی نے شوہر کی زندگی میں ایک لے پالک بچہ لیاتھا ، مرحوم کی ملکیت میں رہا ئشی گھر کے علاوہ دوگھر اوردو دکانیں ہیں ، اب شرعی طریقہ کار پر اس کی تقسیم کیسی ہوگی ؟
 مرحوم کی پہلی بیوی کالے پالک بیٹا  تو شرعاً  مرحوم کے ترکے میں حصہ دار نہ ہوگا ،البتہ اگر مرحوم کے ور ثاء ترکے میں سے اپنی مرضی سے اسے بھی کچھ دینا چاہیں تواس کا انہیں اختیار ہے ۔
اس کے بعد واضح ہو کہ سائل کے والدمرحوم کا  ترکہ اُصولِ میراث کے مطابق اس کے مذکور ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوگا، کہ مرحوم نے بوقتِ  انتقال جو کچھ منقولہ اورغیر منقولہ مال و جائیداد سونا،چاندی،زیورات،نقد رقم اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا   گھریلو ساز و سامان اپنی  ملکیت میں چھوڑا ہے،اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے  متوسط مصارف ادا کریں ،اس کے بعد دیکھیں کہ اگر  مرحوم کے ذمہ کچھ قرض واجب الادایا  بیوہ کا حق مہر ادانہ کیاہو  تو وہ بھی اداکریں ،اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے ایک تہائی(1/3) کی حد تک اس  پر عمل کریں،اس کے بعد جو  کچھ بچ جائے اس کے کل  ایک سو چوالیس (144)حصے بنائے جائیں، جن میں سے والداور والدہ ہر  ایک کو چوبیس(24) حصے ،ہربیوہ کو نو(9)حصے ،جبکہ ہر بیٹےکو چھبیس (26)حصے ، اورہر بیٹی کوتیرہ (13)حصےدیے جائیں - 
کسی نے حصۂ میراث اپنی زندگی میں طلب نہ کیا ہو تو اس کے ورثاء کا اس کے حصے کا مطالبہ کرنا
یونیکوڈ احکام وراثت 1