ایک شخص جلال الدین جس کے 2 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں،1 بیٹا جلال الدین کی زندگی میں فوت ہو گیا،باقی بیٹا شیر محمد اور 2 بیٹیاں عائشہ اور روسالاں بی بی کو جلال کا ورثہ منتقل ہوا ،دونوں بیٹیوں نے اپنا حصہ اپنے بھائی شیر محمد کو ہبہ کر دیا ،اب شیر محمد کی وفات ہو گئی ہے اور شیر محمد کی کوئی اولاد نہیں ہے ،اور انکا بھائی جو پہلے فوت ہو چکا تھا اُسکی بھی کوئی اولاد نہیں ہے ،شیر محمد کے فوت ہونے کے بعد ان کی بیوہ موجود ہے، لیکن اولاد موجود نہیں ہے ،شیر محمد کی دونوں بہنیں شیر محمد سے پہلے وفات پا چکی ہیں، اور دونوں بہنوں کی اولاد موجود ہے، عائشہ بی بی کی اولاد میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، اور ان کا ایک بیٹا فوت ہو چکا ہے جس کی اولاد موجود ہے ،شیر محمد کی دوسری بہن روسولاں بی بی کی اولاد میں دو بیٹیاں ہیں اور وہ دونوں زندہ ہیں، جلال الدین اور اس کے والد کی کوئی بہن بھی نہیں ہے ،مرحوم شیر محمد کی جائیداد کس کو منتقل ہو گی ؟
نوٹ :تقسیمِ میراث کے بعد بہنوں کا حصہ ان کو دے دیا تھا ،اور کاغذی کاروائی بھی ہوگئی تھی ،اس کے بعد بہنوں نے اپنا حصہ اپنے بھائی کو ہبہ کردیا تھا ،نیز مرحوم شیر محمد کےذوی الفروض و عصبات (والدین ،دادا ،دادی،چچا ،بھائی ،بھتیجوں )وغیرہ میں سے کوئی موجود نہیں ہے ۔
سوال میں ذکر کردہ بیان اور اس کے ساتھ وضاحتی نوٹ اگر واقعۃً درست اور مبنی بر حقیقت ہو اس طور پر کہ شیر محمد کی بہنوں نے باقاعدہ شرعی تقسیم اور اپنے حصوں پر قبضہ کر لینے کے بعد اپنی مرضی و خوشی سے اپنا حصہ اپنے بھائی کو ہبہ کردیا تھا تو ایسی صورت میں یہ ہبہ تام ہو چکا تھا ،اور شیر محمد ان حصوں کا مالک بن چکا تھا ،چنانچہ اب شیر محمد کی وفات کے بعد اس کا تمام ترکہ ان کے موجود ورثاء (بیوہ ،بھانجوں اور بھانجیوں )میں حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم کیا جائے گا۔
اس کے بعد واضح ہوکہ اگر مرحوم کے یہی ورثاء ہو ں ان کے علاوہ ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی بھی نہ ہو (جیساکہ وضاحتی نوٹ میں لکھا ہے)تو مرحوم کا ترکہ اس اصولِ میراث کے مطابق اس کے موجود ورثاء میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ مرحوم نے بوقتِ انتقال جو کچھ منقولہ و غیر منقولہ مال و جائیداد ، سونا، چاندی، زیورات، نقدر قم اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھر یلو ساز و سامان اپنی ملکیت میں چھوڑا ہے ، اس میں سے سب سے پہلے مرحوم کے کفن دفن کے متوسط مصارف ادا کریں، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم کے ذمہ کچھ قرض واجب الادا ہویا بیوہ کا حق مہر ادا نہ کیا ہو تو وہ ادا کریں، اس کے بعد دیکھیں کہ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ مال کے ایک تہائی (1/3) کی حد تک اس پر عمل کرکےاس کے بعد جو کچھ بچ جائے اس کے کل (48)حصے بنائے جائیں جن میں سے مرحوم کی بیوہ کو (12) حصے ، چاروں بھانجوں میں سے ہر ایک کو (6) حصے،اور مرحوم کی بھانجیوں میں سے ہر ایک کو (3)حصہ دیے جائیں -
فی الدر المختار : (و تتم) الهبة (بالقبض) الكامل (و لو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) و الأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها ، اھ(5691)۔
و فیہ ایضاً : (هو كل قريب ليس بذي سهم و لا عصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (و لا يرث مع ذي سهم و لا عصبة سوى الزوجين) لعدم الرد عليهما (فيأخذ المنفرد جميع المال) بالقرابة (و يحجب أقربهم الأبعد) كترتيب العصبات فهم أربعة أصناف جزءالميت ، ثم أصله ثم جزء أبويه ثم جزء جديه أو جدتيه (الی قولہ)(ثم) أصله
و هم (الجد الفاسد و الجدات الفاسدات) و إن علوا (ثم) جزء أبويه و هم (أولاد الأخوات) لأبوين أو لأب و أولاد الإخوة و الأخوات لأم و بنات الإخوة لأبوين أو لأب و إن نزلوا اھ(6/792)۔