(+92) 0317 1118263

شیعہ روافض

محرم کی مجالس میں جانا اور شہید کربلا کا سوگ منانا

فتوی نمبر :
59953
| تاریخ :
2020-03-25
ادیان و فرق / جماعت و فرق / شیعہ روافض

محرم کی مجالس میں جانا اور شہید کربلا کا سوگ منانا

تفصیل :میں ایک سنی لڑکی ہوں، میرے گھر میں میرے والدین،ایک بڑی بہن اور ایک چھوٹا بھائی ہے،میرے والد شیعہ ہیں اور باقی ہم سب سنی ہیں، میرا ددھیال شیعہ ہے، لیکن ننھیا ل سنی ہے، میرے والد شیعہ طریقے پر چلتے ہیں،مگر ہم لوگ سنی طریقے پر چلتے ہیں، جیسے کلمہ،نماز، روزہ سنی طریقے سے پڑھتے ہیں اور ہم سنی عقائد کے حامل ہیں، لیکن والد کی وجہ سے ہم سب کو ہرسال محرم کی مجلس میں جانا پڑتا ہے، لیکن ہم وہاں نہ مرثیہ ،نوحہ پڑھتے ہیں اور نہ ماتم کرتےہیں ،پہلے مجھے اتنا علم نہیں تھا، مگر اب مجھے پتہ چلا ہے کہ مجلس میں شرکت ہی نہیں کرنی چاہیے، میرارشتہ بھی سنی گھرانے سے پکا ہوا ہے تو میں نے سوچا کہ آئندہ کبھی مجلسوں میں نہیں جاؤں گی، لیکن ددھیال والوں کی طرف سے مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ ہر سال آتی تھی، اب کیا ہوگیا ،کافی بحث کے بعد حاصل یہ ہوا کہ ان لوگوں نے مجھ سے کہا کہ قرآن اور صحیح حدیث سے یہ بات ثابت کردو کہ مجلس میں جانا گناہ ہے یا شہیدِ کربلا کا غم منانا منع ہے تو تم نہیں آنا مجلس میں، براہِ مہربانی میری راہنمائی فرمائیں ،میں مجلسوں میں نہیں جانا چاہتی ۔

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

حضرت امام حسین رضی اللہ کی شہادت کا واقعہ یقیناًایک درد ناک واقعہ ہے اور خاندانِ نبوت سے عقیدت ومودت رکھنے والوں کیلۓ روح فرساواقعہ ہے ، چنانچہ سب کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ حق پر کس طرح قائم رہتے ہیں، کسی جابر طاقتور کے سامنے جھکنے سے بہتر جامِ شہادت نوش کرنا ہے، مگر بدقسمتی اور حرمان نصیبی یہ ہے کہ جرأت اور حق گوئی کا سبق حاصل کرنے کی جگہ پر جاہلانہ رسومات نے قبضہ کر لیا ہے، انہی رسومات میں سے ایک رسم محرم کی مجالس ہیں،ان مجالس میں شرکت کرنا کئی گناہوں کا مجموعہ ہیں :
(1)۔ کہ اس میں دشمنانِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشبہ ہے، حضورﷺ کا ارشاد ہے "من تشبہ بقوم فھو منہم" جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی، وہ انہیں میں شمارہوگا۔
(2)۔ ان مجالس میں شرکت کرنے سے ان دشمنانِ اسلام کی رونق بڑھتی ہے ،اور غیروں کی رونق بڑھانا بہت بڑا گنا ہ ہے، حضورﷺنے فرمایا "من کثر سواد قوم فہومنہم" جس نے کسی قوم کی کثرت و رونق کو بڑھایا وہ انہیں میں سے ہے۔
(3)۔ جس طرح عبادت کو دیکھنا عبادت ہے، اسی طرح گناہ کو دیکھنا بھی گناہ ہے، ایک دفعہ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم جہاد کی مشق کر رہے تھے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس عبادت کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ،حضور ﷺنے اس کا اتنا اہتمام فرمایا کہ آپ پردے کی غرض سے خود کھڑے ہوگئے ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا آپﷺکے پیچھے پردے میں کھڑی ہو کر آپﷺ کے کندھے مبارک کے او پر سے دیکھتی رہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس عبادت کے نظارے سے سیر ہو کر جب ہٹیں، تب حضورﷺہٹے، غرض یہ کہ عبادت کو دیکھنا بھی عبادت اور گناہ کو دیکھنا بھی گناہ ہے۔
(4)۔ ایسے مقام پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتاہے، غضب والی جگہ جانا بہت بڑاگناہ ہے،ایک دفعہ حضورﷺاور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا گزر ایسی بستیوں کے کھنڈرات پر ہوا جن پر عذاب آیا تھا،تو حضور ﷺ نے اپنے سر مبارک پر چادر ڈال لی اور سواری کو تیز چلا کر اس مقام سے جلدی سے گزر گئے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ہم پر نازل نہ ہو جائے ۔
لہٰذا محرم کی مجلسوں میں شرکت کرنا بدعت میں اعانت اور غیروں کے ساتھ تشبہ کی وجہ سے ناجائز ہے، اس لۓ سائلہ کو ان مجلسوں میں شرکت کرنے سے اجتناب لازم ہے، جبکہ کسی کی وفات پر (چاہے شہید ہو یا اس کے علاوہ ) تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں، (سوائے اس عورت کے کہ جس کا خاوند فوت ہوجائے تو اس کے لۓ چارماہ دس دن سوگ منانے کی اجازت ہے )اس لۓ محرم میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سوگ منانا کسی بھی حال میں جائز نہیں ۔

مأخَذُ الفَتوی

فی سنن ابی داؤد: عن ابن عمر قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- « من تشبه بقوم فهو منهم » اه (ج2ص203)۔
وفي إتحاف الخيرة المهرة: قال أبو يعلى الموصلي: حدثنا أبو همام , أخبرني ابن وهب ، أخبرني بكر بن مضر ، عن عمرو بن الحارث، أن رجلا دعا عبد الله بن مسعود إلى وليمة ، فلما جاء ليدخل سمع لهوا ، فلم يدخل ، فقال : ما لك رجعت ؟ قال : إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : من كثر سواد قوم فهو منهم ، ومن رضي عمل قوم كان شريكا في عملهم اھ(4/ 135)۔
وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: و عنھا قالت: "و اللہ لقد رأیت النبی -صلی اللہ علیه و سلم- یقوم علی باب حجرتی و الحبشة یلعبون بالحراب فی المسجد و رسول اللہ -صلی اللہ علیه و سلم- یسترنی ببردة له لأنظر إلی لعبھم بین أذنه و عا تقه ثم یقوم من أجلی حتی أکون أنا التی أنصرف فاقدروا قدرالجارية الحدیثة السن الحریصة علی اللھو" متفق علیه (الي قوله) ويحتمل الملك والحبشة يلعبون الجملة حالية بالحراب بكسر الحاء جمع الحربة وهي رمح قصير في المسجد أي في رحبة المسجد المتصلة به وكانت تنظر إليهم من باب الحجرة وذلك من داخل المسجد فقالت في المسجد لاتصال الرحبة به أو دخلوا المسجد لتضايق الموضع بهم وإنما سومحوا فيه لأن لعبهم بالحراب كان يعد من عدة الحرب مع أعداء الله تعالى فصار عبادة بالقصد كالرمي قال تعالى جل جلاله وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة الآیۃ من سورۃ الأنفال( 10/ 159)۔
وفي سنن أبى داود: حدثنا القعنبى عن مالك عن عبد الله بن أبى بكر عن حميد بن نافع عن زينب بنت أبى سلمة أنها أخبرته بهذه الأحاديث الثلاثة قالت زينب دخلت على أم حبيبة حين توفى أبوها أبو سفيان فدعت بطيب فيه صفرة خلوق أو غيره فدهنت منه جارية ثم مست بعارضيها ثم قالت والله ما لى بالطيب من حاجة غير أنى سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول « لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ». قالت زينب ودخلت على زينب بنت جحش حين توفى أخوها فدعت بطيب فمست منه ثم قالت والله ما لى بالطيب من حاجة غير أنى سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول وهو على المنبر « لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث ليال إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا ».اھ(2/ 257)۔
وفي البداية والنهاية ط الفكر: وقد أسرف الرافضة في دولة بني بويه في حدود الأربعمائة وما حولها فكانت الدبادب تضرب ببغداد ونحوها من البلاد في يوم عاشوراء، ويذر الرماد والتبن في الطرقات والأسواق، وتعلق المسوح على الدكاكين، ويظهر الناس الحزن والبكاء، وكثير منهم لا يشرب الماء ليلتئذ موافقة للحسين لأنه قتل عطشانا. ثم تخرج النساء حاسرات عن وجوههن ينحن ويلطمن وجوههن وصدورهن، حافيات في الأسواق إلى غير ذلك من البدع الشنيعة، والأهواء الفظيعة، والهتائك المخترعة وإنما يريدون بهذا وأشباهه أن يشنعوا على دولة بني أمية، لأنه قتل في دولتهم اھ(8/ 202)۔
وفي رد المحتار: قال في النهر: وتعقبه ابن العز بأنه لم يصح عنه -صلى الله عليه وسلم - في يوم عاشوراء غير صومه وإنما الروافض لما ابتدعوا إقامة المأتم وإظهار الحزن يوم عاشوراء لكون الحسين قتل فيه ابتدع جهلة أهل السنة إظهار السرور واتخاذ الحبوب والأطعمة والاكتحال، ورووا أحاديث موضوعة في الاكتحال وفي التوسعة فيه على العيال. اهـ. (2/ 418)۔
وفی مجموعة قواعدالفقه: ھی الامر المحدث الذی لم یکن علیه الصحابة و التابعیون و لم یکن مما اقتضاہ الدلیل الشرعی اھ (ص204)۔

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه

فتوی نمبر 59953کی تصدیق کریں
0     1700
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • شیعوں سےتعلقات اور ان کو سلام کرنا

    یونیکوڈ   اسکین   شیعہ روافض 0
  • شیعہ کی دعوت قبول کرنا

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • فرقہ اثنا عشریہ اور سنی مذہب میں فرق

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • کیا شیعہ کافر ہے؟

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 1
  • شیعوں کا عقیدہ امامت اور ختم نبوت

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 2
  • شیعہ کافر ہے یا نہیں؟

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • شیعہ سے متعلق کفر میں تفصیلی حکم

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • جب شیعہ اور قادیانی فتنہ ہیں تو ان سے قتال کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا ؟

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • اگر شیعہ کافر ہے تو اس کے خلاف جہاد اور اس کی عبادت گاہ کو گرانے کا کیا حکم ہے؟

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • (۱) شیعہ کے متعلق مؤقف، (۲) مزارات پر جانا

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • علماء کی جانب سے قادیانیوں اور شیعوں کی سرکوبی اور مخالفت میں فرق کیوں ہے ؟

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • محرم کی مجالس میں جانا اور شہید کربلا کا سوگ منانا

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • شیعہ حضرات کا اذان میں حضرت علیؓ کو خلیفہ بلا فصل کہنا

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
  • مسجد وغیرہ میں خودکش حملہ کرنے کاحکم

    یونیکوڈ   شیعہ روافض 0
Related Topics متعلقه موضوعات