کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سید قطب اپنی تفسیر" ظلال القرآن" میں سورۃ آلِ عمران آیت ۵۵ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
’’[یہود کی سازش ناکام ہوئی:
یہود نے چاہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دے دیں یا قتل کردیں اور اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ انہیں واپس بلالے، انہیں اپنی طرف اُٹھالے اور جنہوں نے ان کا انکار کیا ان کے ساتھ اختلاط اور ان کے درمیان رہنے سے انہیں بچالے اور ان ناپاک اور گندے لوگوں کی گندگی سے انہیں پاک رکھے اور انہیں اس طرح اعزاز بخشے کہ ان کے پیروؤ ں کو ،قیامت تک کیلئے ان کا انکار کرنے والوں پر بالادستی اور غلبہ عطا کرے اور وہی ہوا جو اللہ نے چاہا اور سازش کرنے والوں کی سازش کو اللہ نے ناکام کردیا:اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔’’ہوا یہ کہ اللہ نے کہا: اے عیسیٰؑ! میں تمہیں واپس لے لینے والا ہوں اور میں تمہیں اپنی طرف اُٹھالینے والا ہوں اور تمہیں انکار کرنے والوں سے پاک کردینے والا ہوں اور جنہوں نے تمہاری پیروی کی انہیں اُن لوگوں پر جنہوں نے کفر کیا، قیامت تک بالادستی بخشنے والا ہوں‘‘۔
رہی یہ بات کہ حضرت مسیحؑ کی وفات کس طرح ہوئی اور اللہ کی طرف ان کا رفع کیسے ہوا؟ تو یہ غیبی اُمور ہیں جو متشابہات میں داخل ہیں، اُن کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا،ان میں کھوج کرید کرنے سے نہ عقیدے کیلئے کوئی فائدہ ہے اور نہ شریعت اور قانون کے سلسلے میں، جو لوگ ان امور کے پیچھے دوڑتے ہیں اور انہیں بحث و نزاع کا موضوع بناتے ہیں اور جھگڑے، خبط حواسی اور پیچیدگی میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ کسی حقیقت کے سلسلے میں جزم و قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہہ سکتے اور نہ اس سلسلے میں دل کی راحت و طمانینت سے ہم کنار ہوسکتے ہیں، کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو اللہ ہی کے علم میں ہے]۔‘‘
لیکن ہمارے ایک عالم دین کا اصرار ہے کہ یہ دین کے بنیادی عقیدے کا مسئلہ ہے ’’جو مسیح علیہ السلام کے رفع اور نزول کا قائل نہیں ہے یا اس معاملے کو اللہ پر چھوڑتا ہے وہ بھی کافر ہے؟جناب آپ ہماری اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں کہ ’’جو لوگ کوئی رائے قائم کئے بغیر اس معاملے کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں کیا وہ لوگ بھی کافر ہیں اور کیا یہ کفر و ایمان کا مسئلہ ہے؟ہم آپ کے بہت ممنون ہوں گے کہ آپ اس تکفیر کے معاملے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔ شکریہ
مولوی صاحب موصوف کا یہ کہنا کہ ’’جو مسیح علیہ السلام کے رفع اور نزول کا قائل نہیں الخ‘‘ بلاشبہ درست ہے اور اس کا تعلق نفسِ رفع اور نزول من السماء کے ساتھ ہے جو قرآنِ کریم اور احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے مگر تفسیرِ مذکور کے اس مقام میں حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع السماء یا نزول من السماء کے بارے میں جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ نفسِ رفع و نزول کے متعلق نہیں جس سے کفریہ عقیدہ لازم آئے، بلکہ اس میں ایک امر کے وجود میں آنے کی حالت اور کیفیت جاننے کو علمِ خداوندی سے متعلق کیا گیا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع الی السماء یا ان کے نزول من السماء سے انکار یا اس میں شبہ نہیں کیا گیا، لہٰذا مولوی صاحب موصوف کو چاہئے کہ بلا تحقیق کسی پر کفر کا فتویٰ لگانے سے احتراز کرے۔
فی الدر المختار: واعلم أنہ لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلامہ علٰی محمل حسن أو کان فی کفرہ خلاف ولو کان ذالک روایۃً ضعیفۃً کما حررہ فی البحر۔ (ج۴، ص۲۲۹)-واﷲ الموفق