کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (۱) آپ کا علمِ کلام کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ اور کیا یہ صحیح ہے کہ عقل کو وحی پر ترجیح حاصل ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو اہلِ الکلام کے کیا عقائد ہیں؟ کیا وہ صحیح ہیں یا غلط؟
(۲) کیا میلاد النبی اور ختمِ قرآن سنت سے ثابت ہیں؟
(۱) علمِ کلام جس میں اللہ تعالیٰ کی توحید و صفات سے بحث ہوتی ہے اور اسی کی بناء پر اُسے ’’علم التوحید والصفات‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس علم کا حصول جائز اور فرضِ کفایہ ہے مگر اس میں اتنا انہماک اختیار کرنا کہ دوسرے فرائض کی طرف التفات ہی نہ رہے ناپسندیدہ اور مکروہ ہے جس سے احتراز کرنا چاہئے۔ اور عقل کو وحی پر ترجیح دینا صحیح نہیں اور مسلمان اہلِ کلام کا یہی عقیدہ ہے۔
(۲) میلاد النبی اور ختمِ قرآن یعنی قرآن خوانی کرنا قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
فی رد المحتار: وأمّا فرض الکفایۃ من العلم، فہو کلّ علم لا یستغنی عنہ فی قوام امور الدنیا کالطب، والحساب، والنحو واللغۃ والکلام۔ اھـ (ج۱، ص۴۲)-
و فی المرقاۃ المفاتیح: اعلم انّ العقل الکامل تابعٌ للشرع لأنہ عاجز عن ادراک الحکم الإلٰہیۃ فعلیہ التعبد المحض بمقتضی العبودیۃ وما ضل من ضل من الکفرۃ والحکماء والمبتدعۃ واہل الاہواء الّا بمتابعۃ العقل وترک موافقۃ النقل وقد قال ابو حنیفۃؒ ایضًا لو قلت بالرأی لأوجبت الغسل فیہ ولأعطیت الذکر فی الإرث نصف الانثی لِکونہا اضعف منہ۔ اھـ (ج۲، ص۸۵)-