کیا فرماتےہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
۱۔ کیا جاننے والے اور ناجاننے والے برابر ہیں؟
۲۔ کیا علم میں حسد و غرور جائز ہے جیسے میرے پاس کوئی کتاب ہو اور میں پڑھنے کے لیے نہ دوں؟
۳۔ کیا انسان بغیر استاد کے سیکھ سکتا ہے؟
۴۔ اسی طرح کمپیوٹر اور جہازبنانے والوں کا استاد کوئی تھا؟
۵۔ انسان طاقت کی وجہ سے اشرف المخلوقات ہے یا عقل کی وجہ سے ؟
۱۔ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہوتے۔
۲۔ علم کی وجہ سے بھی حسد اور غرور جائز نہیں۔ اس سے احتراز لازم ہے۔
۳۔ جناب کتاب پڑھنے کےلیے نہ دینے کے ساتھ حسد و غرور کا کیا تعلق ہے؟ جب کتاب کا وہ خود مالک ہے تو اسے اختیار ہے اگر چاہے تو دے ورنہ نہ دے۔ہاں! اگر کتمانِ علم کی غرض ہو تو یہ مناسب نہیں، اس لیے کہ وہ بہت بڑا گناہ ہے، جس سے بہرحال اجتناب لازم ہے۔
۴۔ واضح ہو کہ محض معلومات حاصل کرنے اور فنی مہارت حاصل کرنے میں واضح فرق ہے خواہ جس فن میں بھی ہو، معلومات کے لیے کتابوں کا مطالعہ بھی کافی ہے، لیکن کسی فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ استاد سے سیکھنا اور رابطہ رکھنا لازم ہے۔ اور یہ اصول چھوٹی بڑی تمام مشینریوں کے بنانے میں ملحوظ ہے۔
۵۔ انسان کا اشرف المخلوقات ہونا طاقت کی وجہ سے نہیں، بلکہ خداداد سمجھ اور عقل کی وجہ سے ہے جو وحی کے تابع ہو، نری عقل نہیں۔
قال اللہ تعالیٰ: ﴿قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُون﴾ (الزمر: 9)
و فی مشكاة المصابيح:وعن كعب بن مالك قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: «من طلب العلم ليجاري به العلماء أو ليماري به السفهاء أو يصرف به وجوه الناس إليه أدخل الله النار». رواه الترمذي(1/ 77)
وفی مشكاة المصابيح:وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - : «من سئل عن علم علمه ثم كتمه ألجم يوم القيامة بلجام من نار» . رواه أحمد وأبوداود والترمذي(1/ 77)
قال اللہ تعالیٰ: ﴿لهم قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلّ﴾ [الأعراف: 179]
وقال اللہ تعالیٰ: ﴿ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِين﴾ [التين: 5] واللہ أعلم بالصواب!