 
                    ایک بندہ یہ دعویٰ کررہا ہے کہ عورت کہ آدھی گواہی صرف لین دین کے معاملے میں ہے باقی اس کی گواہی مرد کے برابر ہے، یہی قرآن سے ثابت ہے کیا اس کا دعویٰ ٹھیک ہے؟ اگر غلط ہے تو کہاں ہے؟ صرف قرآن سے ثابت کرو کہ میں غلط ہوں، راہنمائی فرمائیں۔
شرعاً عورت کی گواہی کی مختلف حیثیتیں ہیں، کہیں اس کی گواہی بالکل قبول نہیں کی جاتی، کہیں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر شمار ہوتی ہے بشرطیکہ ساتھ میں کوئی مرد گواہ موجود ہو اور بعض مقامات پر اس کی اکیلے کی گواہی بھی معتبر ہوتی ہے، مگر اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کرنے کا کوئی حاصل نہیں ہے، اس لئے سائل کو چاہئے کہ بحث و مباحثہ کرنے سے اجتناب کرے۔
 کما قال اللہ تعالیٰ فی القرآن الکریم: واستشہدوا شہیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتان۔ (پ۳، سورۃ البقرۃ)۔
وفی تفسیر روح المعانی: (فان لم یکونا) ای الشہیدان (رجلین، ای لم یقصد اشہادہما ولو کانا موجودین والحکم من قبیل نفی العموم لا عموم النفی والا لم یصح قولہ تعالیٰ (فرجل وامرأتان) ای فان لم یکونا رجلین یجتمعان فلیشہد رجل وامرأتان یشہدون۔ او یکفون او فالشاہد رجل وامرأتان او فلیشہد رجل وامرأتان شہود وان جعلت یکن تامۃ استغنی عن تقدیر شہود۔ وکفایۃ الرجل والمراتین فی الشہادۃ فیہا ماعدا الحدود والقصاص عندنا۔ (ج۳، ص۵۸)۔
وقال اللہ تعالیٰ فی القرآن الکریم: والٰتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشہدوا علیہن اربعۃ منکم۔ (پ۴، سورۃ النساء)۔
وفی تفسیر روح المعانی: (فاستشہووا) ای فاطلبو ان یشہد (علیہن) بإتیانہن الفاحشۃ (اربعۃ منکم) ای اربعۃ من رجال المؤمنین واحرارہم قال الزہری مضت السنۃ من رسول اللہ والخلیفتین بعدہ ان لا تقبل شہادہ النساء فی الحدود۔ (ج۴، ص۲۳۴)۔ واللہ اعلم بالصواب