(+92) 0317 1118263

نماز کا کفارہ

کئی سالوں کی نماز کا فدیہ کیسے اداء کریں

فتوی نمبر :
30753
| تاریخ :
2017-04-24
عقوبات / کفارات / نماز کا کفارہ

کئی سالوں کی نماز کا فدیہ کیسے اداء کریں

میری والدہ کے ذمہ قضاء نمازیں تھی جو وہ اپنی زندگی میں ادا بھی کرتی رہی اب ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے کتنی قضاء نمازیں ادا کی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تقریباً ’’ 35‘‘ سال تک نمازیں نہیں پڑھیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں سے کیا ہمیں ان کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ہوگا؟ اگر ہاں تو اس کا کیا طریقہ ہے؟ نمازوں کا حساب کس طرح کیا جائے کیوںکہ وہ ادا بھی کرتی رہیں اور انہوں نے اپنی زندگی میں کچھ زیورات اپنی ایک بیٹی اور پوتی کیلئے رکھے تھے ان کے حوالے سے کیا حکم ہے؟

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

مرحومہ نے اگر فدیہ کی وصیت کی ہے تو اس کے کل مال کے تہائی(3؍1) کی حد تک فدیہ کی ادائیگی ورثاءپر لازم ہے اور وصیت نہیں کی تو ایسی صورت میں ورثاء پر اس کی نمازوں کا فدیہ دینا لازم نہیں ہے، لیکن اگر ورثاء عاقل بالغ ہوں اور فدیہ دینا چاہیں تو ایک نماز کے بدلے میں ایک صدقہ فطر (پونے دو اور احتیاطاً دوکلو گندم) یا اس کی قیمت فقراء ومساکین کودیدیں، اور ایک دن میں وتر سمیت چھ نمازوں کا حساب لگائیں، جبکہ صورت مسئولہ میں مخصوص اندازہ کے مطابق نمازوں کاتخمینہ لگایا جاسکتا ہے۔
جہان تک ان زیورات کا تعلق ہے جو مرحومہ نے اپنی بیٹی اور پوتی کیلئے رکھے ہیں اگر وہ نابالغ اور چھوٹے ہوں اور مرحومہ نے اپنی زندگی میں ان میں سے ہر ایک کیلئےالگ کچھ مخصوص سونا متعین کرکے علیحدہ کرلیا ہو کہ یہ بیٹی کا ہے اور یہ پوتی کا ہےتو اس سے وہ سونا ان کو گفٹ ہوگیا اور وہ بچے اس کے مالک بن گئے ہیں بلوغت کے بعد ان کو وہ سونا دیا جائے۔ اور اگر ایسا نہ ہو یا وہ بچیاں بالغ تھیں لیکن مرحومہ نے وہ سونا اپنی زندگی میں اپنے قبضہ سے نہیں نکالا تھا تو اس کی وہ خود ہی مالک ہے جن کے نام وہ سونا رکھا تھا وہ اس کے مالک نہیں بنے تھے اور اس صورت میں وہ سونا بھی دیگر ترکہ کیساتھ مرحومہ کے انتقال کے بعد اس کے ورثاء میں اصول میراث کے مطابق تقسیم ہوگا۔

مأخَذُ الفَتوی

کما فی الدر المختار (ولو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر) کالفطرۃ (وکذا حکم الوتر) والصوم، وایضایعطی (من ثلث مالہ) الخ
وفی الشامیۃتحت (قولہ یعطی) أی یعطی عنہ ولیہ أي: من لہ ولایة التصرف في مالہ بوصایة أو وراثة، فیلزمہ ذلک من الثلث إن أوصی وإلا فلا یلزم الولي ذلک؛ لأنھا عبادة فلا بد من الاختیار، فإذا لم یوص فات الشرط فیسقط في حق أحکام الدنیاللتعذر (إلی قولہ) وأما إذا لم یوص فتطوع بھا الوارث فقد قال محمد في الزیادات: إنہ یجزیہ إن شاء اللہ تعالٰی، (ج۲، ص۷۲)
وفی الہدایۃ: وکذا اذا وہبت لہ لامہ وھو فی عیالھا والاب میت ولاوصی لہ الح (ج۳ ص۲۸۹)۔
وفی شرح المجلۃ: یملک الموہوب لہ للموہوب بالقبض (ج۳،ص۳۸۱،المادۃ ۷۶۱)
وفی الھدایۃ: والقبض لابد لثبوت الملک (ج۳،ص۲۸۶)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
سراج احمد فضل عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 30753کی تصدیق کریں
0     2237
Related Fatawa متعلقه فتاوی
  • ورثاء کا اپنے مرحوم کی طرف سے نمازوں کا فدیہ دینا

    یونیکوڈ   اسکین   نماز کا کفارہ 0
  • سوائے لین دین کے معاملات کے عورت کی گواہی مرد کے برابرہے؟

    یونیکوڈ   اسکین   نماز کا کفارہ 0
  • کئی سالوں کی نماز کا فدیہ کیسے اداء کریں

    یونیکوڈ   نماز کا کفارہ 0
  • انتقال کرنے والے شخص کی فوت شدہ نمازیں اور روزے کوئی اور شخص ادا کرسکتا ہے ؟

    یونیکوڈ   نماز کا کفارہ 0
  • اگر مرحومہ کی قضاء نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو ان کا کفارہ کیسے دیا جائے ؟

    یونیکوڈ   نماز کا کفارہ 0
Related Topics متعلقه موضوعات