 
                    میری والدہ کے ذمہ قضاء نمازیں تھی جو وہ اپنی زندگی میں ادا بھی کرتی رہی اب ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے کتنی قضاء نمازیں ادا کی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تقریباً ’’ 35‘‘ سال تک نمازیں نہیں پڑھیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد ان کے ترکہ میں سے کیا ہمیں ان کی نمازوں کا فدیہ ادا کرنا ہوگا؟ اگر ہاں تو اس کا کیا طریقہ ہے؟ نمازوں کا حساب کس طرح کیا جائے کیوںکہ وہ ادا بھی کرتی رہیں اور انہوں نے اپنی زندگی میں کچھ زیورات اپنی ایک بیٹی اور پوتی کیلئے رکھے تھے ان کے حوالے سے کیا حکم ہے؟
 مرحومہ نے اگر فدیہ کی وصیت کی ہے تو اس کے کل مال کے تہائی(3؍1) کی حد تک فدیہ کی ادائیگی ورثاءپر لازم ہے اور وصیت نہیں کی تو ایسی صورت میں ورثاء پر اس کی نمازوں کا فدیہ دینا لازم نہیں ہے، لیکن اگر ورثاء عاقل بالغ ہوں اور فدیہ دینا چاہیں تو ایک نماز کے بدلے میں ایک صدقہ فطر (پونے دو اور احتیاطاً دوکلو گندم) یا اس کی قیمت فقراء ومساکین کودیدیں، اور ایک دن میں وتر سمیت چھ نمازوں کا حساب لگائیں، جبکہ صورت مسئولہ میں مخصوص اندازہ کے مطابق نمازوں کاتخمینہ لگایا جاسکتا ہے۔
جہان تک ان زیورات کا تعلق ہے جو مرحومہ نے اپنی بیٹی اور پوتی کیلئے رکھے ہیں اگر وہ نابالغ اور چھوٹے ہوں اور مرحومہ نے اپنی زندگی میں ان میں سے ہر ایک کیلئےالگ کچھ مخصوص سونا متعین کرکے علیحدہ کرلیا ہو کہ یہ بیٹی کا ہے اور یہ پوتی کا ہےتو اس سے وہ سونا ان کو گفٹ ہوگیا اور وہ بچے اس کے مالک بن گئے ہیں بلوغت کے بعد ان کو وہ سونا دیا جائے۔ اور اگر ایسا نہ ہو یا وہ بچیاں بالغ تھیں لیکن مرحومہ نے وہ سونا اپنی زندگی میں اپنے قبضہ سے نہیں نکالا تھا تو اس کی وہ خود ہی مالک ہے جن کے نام وہ سونا رکھا تھا وہ اس کے مالک نہیں بنے تھے اور اس صورت میں وہ سونا بھی دیگر ترکہ کیساتھ مرحومہ کے انتقال کے بعد اس کے ورثاء میں اصول میراث کے مطابق تقسیم ہوگا۔
 
 کما فی الدر المختار (ولو مات وعلیہ صلوات فائتۃ وأوصی بالکفارۃ یعطی لکل صلوۃ نصف صاع من بر) کالفطرۃ (وکذا حکم الوتر) والصوم، وایضایعطی (من ثلث مالہ) الخ
وفی الشامیۃتحت (قولہ یعطی) أی یعطی عنہ ولیہ أي: من لہ ولایة التصرف في مالہ بوصایة أو وراثة، فیلزمہ ذلک من الثلث إن أوصی وإلا فلا یلزم الولي ذلک؛ لأنھا عبادة فلا بد من الاختیار، فإذا لم یوص فات الشرط فیسقط في حق أحکام الدنیاللتعذر (إلی قولہ) وأما إذا لم یوص فتطوع بھا الوارث فقد قال محمد في الزیادات: إنہ یجزیہ إن شاء اللہ تعالٰی، (ج۲، ص۷۲)
وفی الہدایۃ: وکذا اذا وہبت لہ لامہ وھو فی عیالھا والاب میت ولاوصی لہ الح (ج۳ ص۲۸۹)۔
وفی شرح المجلۃ: یملک الموہوب لہ للموہوب بالقبض (ج۳،ص۳۸۱،المادۃ ۷۶۱)
وفی الھدایۃ: والقبض لابد لثبوت الملک (ج۳،ص۲۸۶)