 
                    کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام و مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے، میں اس کی قضاء نمازوں کا فدیہ دینا چاہتی ہوں، لیکن نمازوں کی تعداد معلوم نہیں ہے، تو کیسے فدیہ دوں اور کتنا دوں؟
اگر سائلہ کی مرحومہ بہن نے اپنی قضاء شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینے کی وصیت نہیں کی تھی تو سائلہ کے ذمہ اس کا فدیہ ادا کرنا واجب نہیں، البتہ اگر سائلہ بطور تبرع واحسان اپنی بہن کی قضاء نمازوں کا فدیہ دینا چاہے تو شرعاً یہ بھی جائز اور درست ہے، اب اگر سائلہ کو اپنی مرحومہ بہن کی قضاء نمازوں کی صحیح تعداد کا علم نہ ہو تو ایامِ حیض اور ادا کی گئی نمازوں کے علاوہ غالب گمان سے اندازہ لگاکر ہر فرض نماز اور وتر کو ملاکر یومیہ چھ نمازوں میں سے ہر ایک کے بدلے بقدر صدقہ فطر فدیہ ادا کرے۔
 كما فی الدر المختار: (ولو مات وعلیه صلوٰة فائتة وأوصی بالكفارة یعطی لكل نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر) والصوم.اھ(ج۲، ص۷۲)
وفی الهندیة: وان لم یوص لورثته وتبرع بعض الورثه یجوز ویدفع عن كل صلوٰة نصف صاع حنطة. اهـ (ج۱، ص۱۲۴)
وفی التاتارخانیة: رجل مات وعلیه صلوٰت فأوصی أن یطعموا عنه بصلاته إتفق المشایخ علٰی إنه یجب تنفیذ هذه الوصیة من ثلث ماله (إلی قوله) وان لم یوص الورثة وتبرع بعض الورثة یجوز (إلی قوله) ویدفع عن كل صلوٰة نصف صاع حنطةالخ. اهـ (ج۱، ص۷۷۱)