 
                    ایک دبلا پتلا لڑکا جو کہ حادثاتی طور پر ۱۶ سال کی عمر میں انتقال کر گیا, غالب امکان ہے کہ اس کی کچھ نمازیں اور روزے بھی قضا ہوئے ہوں گے, اب مفتی صاحبان سے سوال یہ پوچھتا ہے کہ اس لڑکے کی قضاء نمازوں اور روزوں کے فدیہ کے لیے کس عمر سے حساب کیا جائے گا؟ مزید یہ کہ اس کے والدین نے اس کے بچپن میں ہی دو لاکھ روپے اس کے لیے مختص کر دیے تھے، اب اس رقم کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کس عمر کا اعتبار ہو گا ؟امید ہے کہ جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمائیں گے۔
مرحوم کی جو نمازیں اور روزے قضاء ہو چکے ہیں، اس کے متعلق اگر مرحوم نے کوئی وصیت نہ کی ہو، تو ورثاء کے ذمہ نماز و روزوں کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر تمام ورثاء اپنی مرضی و خوشی سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دینا چاہیں تو شرعاً ایسا کرنا بھی جائز اور درست ہے، بلکہ مرحوم کے ساتھ خیر خواہی اور بھلائی کی وجہ سے باعث اجر و ثواب ہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ تھی کہ اگر مرحوم کی بالغ عمری کا یقینی علم نہ ہو تو پندرہ سال کی عمر ہونے پر شرعاً اسے بالغ شمار کیا جائے گا، اس کے بعد ان سے جتنی نمازیں اور روزے قضاء ہوئے ہوں ان کا فدیہ ادا کریں، جبکہ زکوٰۃ مرنے سے ساقط ہو چکی ہے، تاہم اگر ورثاء میں سے کوئی ذاتی رقم دینا چاہے تو امید ہے کہ عند اللہ اس کا مؤاخذہ نہیں ہوگا ۔
 فنى التنوير: فإن لم يوجد فيهما شيءٌ حتّی يتم لكل منهما خمس عشرة سنة به يفتى اھ (۱/١٥٣) 
وفی حاشية ابن عابدين: تحت(قوله وأما دين الله تعالىٰ إلخ)(إلی قوله) قال الزيلعي فإنها تسقط بالموت فلا يلزم الورثة أداؤها إلا إذا أوصى بها؛ أو تبرعوا بها هم من عندهم اھ (6/ 760)
وفي التقریرات تحته: وقد حكى السندى قولين: بالسقوط و عدمه فيما لو تبرع الوارث (إلی قوله) وقیل تسقط، لات دليل الجواز الرجاء في سعة رحمته وكمال كرمه وهو يشمل التبرع أيضاً اھ (ص: ٣٥٨)