السلام علیکم! عرض ہے کہ کیا اسلام میں اس بات کی کوئی ممانعت ہے کہ شادی کے بعد بیوی اپنے والد کے نام کی بجائے اپنے خاوند کا نام استعمال نہیں کر سکتی؟ اس بات کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اللہ نے قرآن میں اولاد کو باپ کے نام کے علاوہ کسی اور نام دینے سے منع کیا ہے، کیا یہ حکم صرف زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کیلئے تھا یا اس کا اطلاق اس خاوند اور بیوی کے مسئلے میں بھی کیا جا سکتا ہے؟ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امہات المومنین نے بھی تو حضرت محمد ﷺ کا نام اپنے نام کے ساتھ نہیں لگایا اور یہ ہمارے لیے کافی ہے کہ ہم بھی خاوند کا نام نہ لگائیں، کچھ لوگ بیوی کے نام کو تبدیل کرنے کو اسلام میں منع ہونا سمجھتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
بیوی کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانے سے مقصد نسب میں تبدیلی نہیں ، بلکہ محض پہچان کیلئے بطور لاحقہ شوہر کا نام ملایا جاتا ہے، تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ یہ فلاں کی بیوی ہے ، لہذا ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، اور یہ محض عرف کی بناء پر ہے، جبکہ قرآن کریم میں بطور نسب کسی اور کا نام لگانے کی ممانعت آئی ہے۔
ففي أحكام القرآن للجصاص: وقوله تعالى وما جعل أدعياءكم أبناءكم قيل إنه نزل في زيد بن حارثة وكان النبي صلى الله عليه وسلم قد تبناه فكان يقال له زيد بن محمد اھ (5/ 222)
وفي سنن أبي داود: عن أنس بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «يا بني» اھ (4/ 291)
وفيه أيضاً: عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم» اھ (4/ 287)
وفيه أيضاً : عن عائشة رضي الله عنها، أنها قالت: يا رسول الله، كل صواحبي لهن كنى، قال: «فاكتني بابنك عبد الله» يعني ابن اختها قال مسدد: عبد الله بن الزبير، قال: فكانت تكنى بأم عبد الله اھ (4/ 293)
ازدواجی حقوق اور نان و نفقہ ادا نہ کرنے والے شوہر سے علیحدگی اختیار کرنے کا حکم
یونیکوڈ شوهر و بیوی کے حقوق 0