کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مجھے ایک ای میل ڈاک کی فہرست سے حال ہی میں ملی ہے جس کا عنوان ہے ’’اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد حاصل کرنے کی تلاش‘‘ اس میں کہا گیا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد حاصل کرنا شرک نہیں ہے، بلکہ ٹھیک ہے اور اس مضمون میں کئی سوالات ہیں، ہمارے مشہور علماء کی طرف سے جیسے ابن تیمیہؒ، ابن کثیرؒ، حافظ ابن حجر ان علماء نے اس کی اجازت دی ہے، مجھے توسل /توصل کا علم ہے لیکن یہ ایک طرح کا ذریعہ کا تلاش کرنا ہے اور یہ کس طرح بھی کسی مردہ شخص سے بلا واسطہ مدد طلب کرنا نہیں ہے، جب سے میں نے یہ مضمون دیکھا ہے شیاطین میرے ذہن و دل میں وسوسے ڈال رہے ہیں، غالباً یہ مکمل طور پر بریلوی مضمون ہے کیونکہ وہی ہیں جو اس طرح کی خرافات پر یقین کرتے ہیں، میری مدد کریں اور یہ بتائیں کہ علماءِ دیوبند اس مضمون کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
محترم! مذکور مضمون تو ہماری نظر سے نہیں گزرا مگر یہ بات دلائل کی رو سے محقق ہے کہ غیر اللہ سے مافوق الاسباب مدد مانگنا ناجائز بلکہ شرک ہے اور ماتحت الاسباب بلاشبہ جائز ہے، لہٰذا بلاوجہ اس قسم کے مضامین پڑھنے اور ان پر غور و فکر کرنے سے احتراز کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
قال اﷲ تعالٰی: {وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَائِہِمْ غٰفِلُوْنَ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَآء وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِیْنَ}۔ (الاحقاف: ۵،۶)
وقال تعالٰی: {اَیُشْرَکُوْنَ مَالَا یَخْلُقْ شَیْئًا وَّہُمْ یَخْلُقُوْنَ وَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَہُمْ نَصْرًا وَّلَا اَنْفُسَہُمْ یَنْصُرُوْنْ}۔(الاعراف: ۱۹۱،۱۹۲)-
قال رسول اﷲ ﷺ: اذا سئلت فاسئل اﷲ واذ استعنت فاستعن باﷲ-(ترمذی: ج۲، ص۷۸)-
والثانی انہ دعاہ وناداہ (ای الرسول ﷺ) بالتضرع واظہار الفاقہ والاضطرار الیہ وسأل منہ ھٰذہ المطالب التی لا تطلب الا من اﷲ وذٰلک وہو الشرک فی الالٰہیۃ۔ تفسیر العزیز الحمید فی شرح کتاب التوحید باب من الشرک ان یستغیث بغیر اﷲ۔ (ماخوذ از کفایۃ المفتی: ص۱۸۷)- واﷲ اعلم