میرا سوال یہ ہے کہ میں نے شادی کی ایک لڑکی سے آٹھ سال پہلے،اپنے باپ کے کہنے پر،جب وہ لڑکی میرے پاس آئی شادی کی پہلی رات،جب دیکھا لڑکی باکرہ نہیں تھی،یعنی اس نے اپنی بکارت زائل کی تھی اور اس میں کافی ڈھیلا پن تھا تو اس ٹائم میرا گھریلو مسئلہ تھا،میں نے کچھ نہیں کہا اس لڑکی کو،میں نے سوچا بعد میں معلوم کروں گا، اس طرح آٹھ سال گزرے،ابھی میرے تین بچے ہیں اور مجھے بالکل تسلی نہیں ہوئی کہ اس نے یہ کام کیوں کیا اور کس کے ساتھ کیا،میں نے اپنی بیوی کو بہت مارا،لیکن وہ نہیں مانتی ہے اور میرے ذہن میں دن رات چوبیس گھنٹے یہ سوچ رہتی ہے ،پچھلے چار سالوں سے،ابھی میرا دل کرتا ہے کہ اس کو مار ڈالوں،کیونکہ میں اس سوچ سے پاگل ہوجاؤں گا،یا پھر اس کو کیسے منالوں کہ وہ مان جائے کہ اس نے یہ کام کیا ہے،ابھی تک میرا شک ہے کہ وہ ابھی بھی یہ کام کرتی ہے دوسروں کے ساتھ،اگر اس نے مان لیا تو پھر میں اس کو مار ڈال سکتا ہوں؟ براہِ مہربانی مجھے اسلامی فتوی دیں ،تاکہ مجھے تسلی ہوجائے۔
اولاً تو یہ جاننا چاہیئے کہ شرعاً اور طبی طور پر بھی بکارت کا زائل ہونا ہمبستر ہونے کے ساتھ لازم نہیں،بلکہ اس کے زائل ہونے کے اور بھی اسباب ہوسکتے ہیں،جیسا کہ اچھلنا،کودنا یا رحم میں کسی زخم کا ہونا،عمر کی زیادتی وغیرہ، اور ثانیاً جب اس کی بیوی اپنی پاکدامنی پر حلف بھی اٹھا رہی ہے تو ایسی صورت میں سائل کا اس کے حلف کا اعتبار نہ کرنا اور نہ ہی دیگر امورِ خارجیہ کا لحاظ رکھنا،جن سے بکارت زائل ہوسکتی ہے،بڑے درجہ کی جہالت،دین سے دوری اور ہٹ دھرمی پر مبنی حرکت ہے، اس پر لازم ہے کہ کسی واضح ثبوت اور حجتِ شرعیہ کے بغیر ایسی باتوں اور بلاوجہِ شرعی کے بدگمانی کرنے سے احتراز کرے اور باہم الفت ومحبت اور لحاظ و مروّت سے کام لے،بیوی کو اس کا جائز مقام دے،اس کی ضروریات وحاجات کا لحاظ رکھے،اسے بلاوجہ مارنے پیٹنے سے احتراز کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی امورِ شرعیہ کی پابندی کا اہتمام کرے کہ اسی میں اس کے گھر،عزت وآبرو،بچوں کے مستقبل اور نسب کی حفاظت ہے۔
کماقال اللہ تعالیٰ: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا (الحجرات:12الآیة)
وفی الترغیب والترھیب: وعن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال قال رسول اللہ ﷺ:برّوا آباءکم تبرّکم ابناؤکم،وعفّوا تعفّ نساءکم،رواہ الطبرانی باسناد حسن ورواہ أیضاً ھو وغیرہ من حدیث عائشة (3/318)۔
وفی الھندیة:وإن زالت بكارتها بوثبة أو حيضة أو جراحة أو تعنيس فهي في حكم الأبكار اھ(1/290)۔