کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے کہ ضلع لکی مروت میں ایک گاؤں ’’نارمحمد خان غزنی خیل‘‘ میں واقع ہے ، جس کی آبادی بالغ و نابالغ ، مرداور عورتیں سب ملا کر ۳۵۰۰ سے ۴۰۰۰ یا ۴۵۰۰ تک ہوگی ، اور اس گاؤں میں ایک ہائی سکول اور تین پرائمری سکول لڑکوں کے اور ایک مڈل سکول اور دو پرائمری سکول لڑکیوں کے ہیں ، ۱۰ مسجد یں ، دو آٹا مشین ، تقریباً ۱۵ دکا نیں جو کہ متفرق ہیں جس میں تقریباً روز مرہ کی ضروریات پوری ہوتی ہیں، ایک ویلڈنگ اور سائیکلوں کی مرمت کی دکان ، دومیڈیکل اسٹور اور تقریباً تین زنانہ کپڑوں وغیرہ کی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں ، اور ایک دینی مدرسہ بھی ہے جس میں حفظ اور ناظرہ کا مکمل انتظام موجود ہے ، اور تین درزیوں کی دکا نیں ، پانچ پولٹری فارم اور ایک باڑہ بھی ہے ، اور اس میں اور بھی مختلف قسم کے پیشہ ور لوگ موجود ہیں ، مثلا ترکان ، موچی ، لوہار وغیرہ ۔
نیز اس گاؤں کے قریب ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک اور آبادی ’’کوٹکہ امام دین‘‘ کے نام سے ہے ، جس کی تعداد تقریباً ۳۰۰ یا ۳۵۰ ہوگی، جس میں بھی ایک مسجد، ایک دکان اور ایک پولٹری فارم ہے ، اور اس کے مصالح اورضرور یات اس بڑے گاؤں سے متعلق ہیں ، مثلا بجلی ، پانی ، قبرستان وغیرہ ، اور دونوں گاؤں کی زمینیں مشترک ہیں ، نیز عرف میں اور کاغذات میں یہ ’’نار محمد خان غزنی خیل‘‘ نام سے مشہور ہے، البتہ آپس میں ایک دوسرے کے لوگ الگ الگ نام سے یادکرتے ہیں ، مذکور تفصیل کے مطابق اس گاؤں’’نار محمد خان غزنی خیل‘‘ میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے یانہیں ؟ نیز یہ گاؤں قر یہ کبیرہ شمار ہوگا یا صغیرہ ؟ براہِ کرم تفصیل سے جواب دے کر ممنون فرمائیں ۔شکریہ
اصل یہ ہے کہ گاؤں میں جمعہ صحیح نہیں ، اور شہر اور قصبات میں صحیح ہے ، اورکسی جگہ کے چھوٹے گاؤں یا شہر اور بڑا قصبہ ہونے کی بنیادعرف پر ہے ، جبکہ سوال میں مذکور گاؤں جو دس مختلف محلوں اور مساجد پر مشتمل ہے اور اس کی آبادی بھی تقریباً تین ہزار پانچ سو تک پہنچتی ہے، عرفاًبڑے قصبہ کی تعریف میں داخل ہے ، اس لۓ وہاں کے باشندے جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں، البتہ بہتر یہ ہے کہ کسی ایک مقام پر نمازِ جمعہ کا اہتمام کر یں، تا کہ مسلمانوں کی شوکت وقوّت کا اظہار ہو ۔
في حاشية ابن عابدين: (قوله وظاهر المذهب إلخ) قال في شرح المنية. والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وتزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح اهـ (2/ 137)۔
وفي البحر الرائق: وفي حد المصر أقوال كثيرة، أختاروا منها قولين: أحدهما ما في المختصر، ثانيهما ما عزوه لأبي حنيفة أنه بلدة كبيرة، فيها سكك و أسواق ولها رساتیق اھ (٢ / ١٤٠ )۔
وفي العرف الشذى على الترمذي: أحدهما بيان محل اقامة صلوة الجمعة، وهو المصر أو القرية الكبيرة عندنا اھ(۱ / ۲۲۳)۔