کیا فرماتےہیں علماءِ کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مدرسہ کا طالب علم اگر جہاد کے نام پر فنڈجمع کر کے اپنی تعلیم کی فیس میں اس کو ادا کر دے یا کتابیں اور کاپیاں وغیرہ خریدے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر خرچ کر دیئے ہوں تو پھر کیا کرنا چاہیے؟
مذکور عمل دھوکہ دہی پر مبنی ہونے کیوجہ سے شرعاً ناجائز اور حرام ہے جس سے احتراز لازم ہے، اور اب تک جتنی رقم اس طرح جمع کی ہے تو دینے والوں کی اجازت سے دوسرے کسی بھی مصرف میں خرچ کر سکتے ہیں۔
ففی البحر الرائق شرح کنز الدقائق: و في القنية من آخر الوقف بعث شمعا في شهر رمضان إلى مسجد فاحترق و بقي منه ثلثه أو دونه ليس للإمام و لا للمؤذن أن يأخذ بغير إذن الدافع و لو كان العرف في ذلك الموضع أن الإمام و المؤذن يأخذه من غير صريح الأذن في ذلك فله ذلك اهـ (5/270)۔
و فی رد المحتار: و كذا سيأتي في فروع الفصل الأول أن قولهم شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم و الدلالة، و وجوب العمل به قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أن الواقف نفسه شرط ذلك حقيقة أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط اھ ( 4/366)۔