السلام علیکم کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میں عمران خان بنگش نے نکاح کیا ہے اور نکاح میں مہر کی مقدار چار تولہ سونا رکھا ہے، اس میں دیڑھ تولہ سونا معجل اور دھائی تولہ سونا مؤجل ہے ، ابھی میں شادی کرنے کی خواہش مند ہو ، لیکن حالات خراب ہونے کی وجہ سے ادھے تولہ سونا کی بھی طاقت نہیں رکھتا، لہذا اگر میں رخصتی کرو اور بعد میں تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرو تو یہ رخصتی جائز ہے یا نہیں ؟ اور بیوی والے بھی اس بات پر راضی ہے کہ آپ فتویٰ لائے اور بیوی کو لے جائے، لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب کے منتظر ہے۔
سوال میں درج کردہ تفصیلات کے مطابق اگر سائل کی بیوی کی طرف سے ڈیڑھ تولہ سونا مہر معجل کا فوری طور پر مطالبہ نہ ہو بلکہ وہ مہر معجل کی تاخیر سے ادائیگی پر راضی ہو تو ایسی صورت میں سائل کے لئے مہر معجل کی ادائیگی کئے بغیر رخصتی کرنا اور دونوں کا میاں بیوی کی طرح رہنا بلا شبہ جائز اور درست ہوگا۔
کما فی الفقہ الاسلامی و ادلتہ: يصح كون المهر معجلًا أو مؤجلًا كله أو بعضه إلى أجل قريب أو بعيد أو أقرب الأجلين: الطلاق أو الوفاة، عملًا بالعرف والعادة في كل البلدان الإسلامية، (ج 9، ص 6787، ط: دار الفکر)۔
وفیہ ایضاً: ويكون رضاها بالدخول أو بالخلوة قبل قبض معجل مهرها إسقاطًا لحقها في منع نفسها في الماضي، وليس لحقها في المستقبل. وهذا هو الراجح عند الحنفية، فللمرأة منع نفسها من الوطء ودواعيه، ومن السفر بها، ولو بعد وطء وخلوة رضيتهما؛ لأن كل وطأة معقود عليها، فتسليم البعض لا يوجب تسليم الباقي. وفي رأي الصاحبين: ليس لها أن تمنع نفسها، لأنها بالوطء مرة واحدة أو بالخلوة الصحيحة، سلمت جميع المعقود عليه برضاها، وهي من أهل التسليم، فبطل حقها في المنع (ج 9، ص 6791، ط: دار الفکر)۔