مصارفِ زکوٰۃ سے متعلق مندرجہ ذیل مسائل کی بابت ہماری رہنمائی فرمائیں: (۱) کیا زکوٰہ کی رقم سے کوئی عمارت، زمین جو کہ کسی خیراتی، رفاہی دینی مدرسہ یا فلاحی مقصد کیلئے ہو خریدی جاسکتی ہے؟
(۲) کیا پہلے سے تعمیر شدہ عمارت، فلاحی مرکز، دینی مدرسہ جہاں یتیم، ناداراور اقامتی طلبہ رہائش پذیر ہوں کے تعمیری کاموں پرزکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے؟ جواب سے مطلع فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔
قرآن و سنت کی نصوص اور علماء امت کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کےصحیح ہونے کیلئے مستحق زکوٰۃ کو مالک بنانا شرط اور ضروری ہے، جو کہ مذکور دونوں صورتوں میں مفقود ہے، لہٰذا زکوٰۃ کی رقم سے کسی رفاہی، فلاحی، یا دینی ادارہ کیلئے زمین اور عمارت خریدنا، یا زکوٰۃ کی رقم، ان اداروں کے تعمیری کاموں میں خرچ کرنا درست نہیں، اور ایسا کرنے سے زکوٰۃ بھی ادا نہ ہوگی، اس لئے اس سے احتراز لازم ہے۔
فی الفقہ الإسلامی: شروط صحة اداء الزکاة ... التملیک یشترط التملیک فلا یکفی فیہا الإباحة او الإطعام إلا بطریق التملیک. اھـ
وایضًا فیہ: الباب الرابع: الزکاة وانواعھا الفصل الأقل البحث السادس، مصارف الزکاة( ج۲، ص۸۷۵، ط: حقانیہ پشاور.)
اتفق جماھیر فقہاء المذاہب، علی أنہ لا یجوز صرف الزکاة إلی غیر من ذکر اللہ تعالٰی، من بناء المساجد والجسور والقناطر والسقایات .... ونحو ذالک من التراب التی لم یذکرھا قال ﴿إنما الصدقات للفقراء﴾ وکلمة انما للحصروا الإثبات، تثبت المذکور، وتنفی ما عداہ، فلا یجوز صرف الزکاة إلٰی ھٰذہ الوجوہ، لانہ لم یوجد التملیک أصلًا اھـ وھٰکذا فی الدر وشرحہ. (ج۲، ص۳۴۴، باب المصرف، ط: سعید وھٰکذا فی الھندیة: ج۱، ص۱۸۸، کتاب الزکاة / الباب السابع) واللہ سبحانہ وتعالٰی اعمل لما ھو أجزم واحکم