کیا فرماتے ہیں علمائے اس مسئلہ کے بارے میں کہ (۱) بناء مسجد کیلئے لئے ہوئے قرض کی ادائیگی کیلئے مسجد کا متولی زکوٰۃ لے سکتا ہے کہ نہیں؟
(۲) اگر کوئی نذر کرے کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو ایک گائے ذبح کرکے اللہ کے راستہ میں صدقہ کروں گا، تو آیا اس کا گوشت خود کھاسکتا ہے کہ نہیں؟ بینوا توجروا!
جواب: (۱) یہ قرض کسی شخص کی ذات پر نہیں بلکہ مسجد پر ہے اور پھر اس کا انتظام کرنے کی نسبت سے ضمناً منتظمہ کمیٹی پر ہے نہ کہ اصالۃً اور متعلقہ مصرف ملکیت اور قبض کی صلاحیت نہیں رکھتا جو ادائیگی زکوٰۃ کیلئے شرط کے درجہ میں ہے اس لئے مسجد میں زکوٰۃ اور دیگر صدقات واجبہ کی رقم سے دینا شرعاً جائز نہیں اس سے احتراز لازم ہے۔
البتہ دیگر عطیات اور صدقات نافلہ کی مد سے اس قرض کی ادائیگی بلاشبہ جائز اور درست ہے۔
(۲) مذکور نذر ’’واجب‘‘ کے حکم میں ہے جس کا پورا کرنا لازم ہے اور اگر جانور متعین نہ کیا ہو تو متوسط درجہ کی گائے کی قیمت صدقہ کرنے سے بھی یہ نذر پوری ہوجائے گی اور اگر گائے ذبح کردی تو اس نذر کے مال سے خود نذر کرنے والے کو کھانا جائز نہیں اس سے احتراز لازم ہے۔
وفی رد المختار: لا یصرف إلٰی بناء نحو مسجد. الخ (ج۲، ص۳۴۴)
وفی العالمگیریة: إن وجبت بالنذر فلیس لصاحبها یأكل منها شیئًا ولا أن یطعم غیره من الأغنیاء سواء كان الناذر غنیًا أو فقیرًا لأن سبیلها التصدق ولیس للمتصدق أن یأكل صدقته ولا أن یطعم الأغنیاء كذا فی التبین. الخ (ج۵، ص۳۰۰) والله اعلم وعلمه أتم وأحكم