علمِ نجوم کو پڑھنا ، اس پر یقین کرنا اور اس کو صحیح علم تصور کرنا کہاں تک درست ہے ؟ اگر ایک شخص کہتا ہے کہ جمنائی یا کوئی بھی اسٹار کے لوگ ایسے ہوتے ہیں ، یا ان میں یہی خاصیت ہوتی ہے تو ایسی باتیں کہاں تک صحیح ہے؟
واضح ہو کہ کسی نجومی کے پاس غیب اور تقدیر کا حال جاننے کے لئے جانا یا ان کا علم سیکھنا، یا ان کی بتائی ہوئی باتوں پر یقین اور اعتقاد رکھنا شرعاً نا جائز و حرام ہے ، اور اس پر احادیثِ مبارکہ میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس لیے اس علم کے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے احتراز لازم ہے، البتہ علمِ نجوم کے ذریعہ احکامِ شرعیہ کی معرفت جیسے سمتِ قبلہ کا تعین، راستہ کا علم یا اوقاتِ نماز وغیرہ کے بقدر علم ( جسے علم الفلکیات کہا جاتا ہے ) سیکھنا شرعاً درست ہے۔
قال اللہ تعالیٰ: قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ( سورۃ النمل: 65)۔
وفي سنن ابی داؤد: «من اقتبس علما من النجوم، اقتبس شعبة من السحر زاد ما زاد» اھ ( باب فی النجوم، رقم الحدیث: 3905 )۔
وفي الدر المختار: و حراماً، و ھو علم الفلسفۃ والشعبذۃ و التنجیم الخ
وفي الرد المحتار تحت: ( و التنجیم) ھو علم یعرف بہ الاستدلال بالتشکلات الفلکیۃ علی حوادث السلفیۃ (الی قولہ ) ثم تعلم مقدار ما یعرف بہ مواقیت الصلاۃ والقبلۃ لا بأس بہ ( الی قولہ ) ولذا قال فی الاحیاء: ان علم النجوم فی نفسہ غیر مذموم لذاتہ اذ ھو قسمان الخ ثم قال ولکن مذموم فی الشرع۔ وقال عمر: تعلموا من النجوم ما تھتدوا بہ فی البر و البحر ثم امسکوا الخ ( مطلب فی التنجیم ج 1 ص 43 ط: سعید)۔ واللہ اعلم
جمعرات اور مغرب کے بعد حاملہ خاتون کو گھر سے نکلنے سے منع کرنے کی حقیقت
یونیکوڈ توہم پرستی اور بدفالی 0