السلام علیکم! کیا فرماتے ہیں علماءِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی مسلمان رشتہ دار کا کسی رشتہ دار کے بارے میں یہ وصیت کرنا کے وہ میرے مرنے پر نہ میرے گھر آئے، نہ میری شکل دیکھے اور نہ میرے جنازے کو کندھا دے، جبکہ اختلاف صرف اور صرف جائیداد کی وجہ سے تھا، ایسی وصیت کی شرعی حیثیت کی راہ نمائی فرمائیں۔
در حقیقت یہ کوئی وصیت نہیں، بلکہ سخت ناراضگی کا اظہار ہے، اس لئے متعلقہ شخص کو چاہیے کہ اس کے حق کی ادائیگی کرے اور زندگی ہی میں معافی تلافی کرے، جبکہ اس سے قبل اگر اس کا انتقال ہو جائے تو وہ اس کا جنازہ بھی پڑھ سکتا ہے اور کندھا بھی دے سکتا ہے ، اس میں شرعا کوئی حرج نہیں۔
ففي سنن أبي داود: عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث، فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار» اھ (4/ 279)
وفي الدر المختار: أوصى بأن يصلي عليه فلان أو يحمل بعد موته إلى بلد آخر أو يكفن في ثوب كذا أو يطين قبره أو يضرب على قبره قبة أو لمن يقرأ عند قبره شيئا معينا فهي باطلة سراجية وسنحققه. (6/ 666)