(+92) 0317 1118263

احکام وصیت

والد مرحوم کی طرف سے فوت شدہ نمازوں کے فدیہ دینے کا حکم

فتوی نمبر :
13973
| تاریخ :
2011-11-04

والد مرحوم کی طرف سے فوت شدہ نمازوں کے فدیہ دینے کا حکم

۱۔ میرے والد صاحب کا ۲۰ دن قبل انتقال ہو گیا ہے، کیا میں ان کی طرف سے ان کی فوت شدہ نمازوں کا فدیہ دے سکتا ہوں ؟
۲۔ نماز کے فدیہ کی مقدار کیا ہو گی؟

الجوابُ حامِدا ًو مُصلیِّا ً

۱۔ اگر آپ کے والد مرحوم نے اپنی قضاء نمازوں کے فدیہ سے متعلق وصیت کی ہو ، اور مرحوم کے ترکہ میں بھی اس کی گنجائش ہو تو ایک تہائی ترکہ سے اس کی ادائیگی لازم ہے، ورنہ سائل اگر اپنی طرف سے والد مرحوم کیساتھ تبرع اور احسان والا معاملہ کرنا چاہے تو یہ بھی درست ہے ، اور یہ والد کے احسانات کا بدلہ ہے۔ جس پر سائل کو اجر بھی ملےگا۔
۲۔ جبکہ فوت شدہ نمازوں کے فدیہ کی مقدار یہ ہے کہ ہر نماز کے بدلے پونے دوسر گندم یا اس کی قیمت کسی مستحق کو دیدی جائے۔

مأخَذُ الفَتوی

وفی الدر المختار:(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر)كالفطرة الخ (2/ 72)
وفي رد المحتار تحت:(قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير (2/ 72)
وفي الفتاوى الهندية: إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله وإن لم يترك مالا يستقرض ورثته نصف صاع ويدفع إلى مسكين ثم يتصدق المسكين على بعض ورثته ثم يتصدق ثم وثم حتى يتم لكل صلاة ما ذكرنا، كذا في الخلاصة. وفي فتاوى الحجة وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز ويدفع عن كل صلاة نصف صاع حنطة منوين، ولو دفع جملة إلى فقير واحد، جاز اھ(1/ 125)

واللہ تعالی اعلم بالصواب
ریاض محمد فیروز عُفی عنه
دار الافتاء جامعه بنوریه عالمیه
فتوی نمبر 13973کی تصدیق کریں
0     90