کیا مصیبت کے وقت اذان دینا حدیث سے ثابت ہے؟
نبی کریم ﷺ کے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اور فقہاء کرام رحمہم اللہ نے نماز کے علاوہ اذان دینے کے جتنے مواقع بیان فرمائے ہیں ان مین وباء عام کے وقت دینے کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا سنت یا مستحب سمجھ کر مذکورہ موقع میں اذان دینا درست نہیں، البتہ دفع مصیبت کیلئے بطورِ علاج مذکورہ موقع میں اذان دی جائے تو یہ فی نفسہٖ اگرچہ مباح ہے، لیکن عوام الناس چونکہ حدود و قیود کا لحاظ نہیں رکھتے اور اسے شریعت کا حکم سمجھتے ہیں اس لئے اس سے اجتناب کیا جائے۔
کما فی الشامیۃ: (قولہ: لا یسن لغیرہا) أی من الصلوات وإلا فیندب للمولود، وفی حاشیۃ البحر الرملی: رأیت فی کتب الشافعیۃ أنہ قد یسن الأذان لغیر الصلاۃ، کما فی أذان المولود، والمہموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقہ من إنسان أو بہیمۃ، وعند مزدحم الجیش، وعند الحریق، قیل وعند إنزال المیت القبر قیاسا علی أول خروجہ للدنیا، لکن ردہ ابن حجر فی شرح العباب، وعند تغول الغیلان: أی عند تمرد الجن لخبر صحیح فیہ، أقول: ولا بعد فیہ عندنا، اھـ أی لأن ما صح فیہ الخبر بلا معارض فہو مذہب للمجتہد وإن لم ینص علیہ، لما قدمناہ فی الخطبۃ عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعرانی عن کل من الأئمۃ الأربعۃ أنہ قال: إذا صح الحدیث فہو مذہبی، علی أنہ فی فضائل الأعمال یجوز العمل بالحدیث الضعیف کما مر أول کتاب الطہارۃ، وقال المنلا علی فی شرح المشکاۃ قالوا: یسن للمہموم أن یأمر غیرہ أن یؤذن فی أذنہ فإنہ یزیل الہم، کذا عن علی ؓ ونقل الأحادیث الواردة فی ذلک فراجعہ۔ اھـ (ج۱، ص۳۵۸) واللہ اعلم