میرا ایک سوال ہے کہ میری پھوپھی کہتی ہے کہ ہمارے گھر کے نچلی منزل میں نیک اور صالح بزرگ رہتے ہیں جو نظر نہیں آتے ، مگر محسوس ہوتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے ایسا ہو سکتا ہے؟ کیونکہ انسان مرنے کے بعد تو قبر میں چلا جاتا ہے جو کہ عالم برزخ ہوتا ہے تو پھر اس کی کیا وجہ ہے اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی روح اپنے اختیار سے کہیں بھی آ، جا سکے؟
یہ سائل کی پھوپھی کا وہم ہے شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ، البتہ شیاطین بعض مرتبہ انسانی شکل میں متشکل ہو کر اس طرح کی حرکات کرتے ہیں جس سے انسان کو دھوکہ لگے اس لیے اس طرح کی باتوں پر اعتماد کرنے سے احتراز چاہیے۔
کما فی المرقاۃ: عن عبد الرحمٰن قال قال رسول اللہ – صلی اللہ علیہ و سلم - أن أرواح المؤمنين في طير خضر تعلق بشجرۃ الجنۃ۔قال ملا علی القاری فی شرح ھذا الحدیث وفي حديث أن أرواح المؤمنين في حواصل طير خضر ترعى في الجنة وتأكل من ثمارها وتشرب من مياهها وتأوي إلى قناديل من ذهب تحت العرش قال القرطبي وذهب بعض العلماء إلى أن أرواح المؤمنين كلهم في الجنة يعني أنه غير مختص بالشهداء ولذلك سميت جنة المأوى لأنها تأوى إليها الأرواح وهي تحت العرش۔( ۴/ ۱۱۳)
و فی شرح الفقہ الاکبر: و اعادہ الروح الی جسد العبد فی قبرہ حق (۱/١٧٠)
و فیہ ایضا: و لکن اختلفوا فی انہ ھل یعاد الروح الیہ و المنقول عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ التوقف الا ان کلامہ ھنا یدل علی اعادۃ الروح اذ جواب الملکین فعل اختیاری فلا یتصور بدون الروح اھ (ص:۱۱۷) واللہ اعلم بالصواب