ایک بندہ یہ دعویٰ کررہا ہے کہ عورت کہ آدھی گواہی صرف لین دین کے معاملے میں ہے باقی اس کی گواہی مرد کے برابر ہے، یہی قرآن سے ثابت ہے کیا اس کا دعویٰ ٹھیک ہے؟ اگر غلط ہے تو کہاں ہے؟ صرف قرآن سے ثابت کرو کہ میں غلط ہوں، راہنمائی فرمائیں۔
شرعاً عورت کی گواہی کی مختلف حیثیتیں ہیں، کہیں اس کی گواہی بالکل قبول نہیں کی جاتی، کہیں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر شمار ہوتی ہے بشرطیکہ ساتھ میں کوئی مرد گواہ موجود ہو اور بعض مقامات پر اس کی اکیلے کی گواہی بھی معتبر ہوتی ہے، مگر اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کرنے کا کوئی حاصل نہیں ہے، اس لئے سائل کو چاہئے کہ بحث و مباحثہ کرنے سے اجتناب کرے۔