حضرات مفتیان کرام السلام علیکم ! گزارش ہے کہ گورنمنٹ کے کسی محکمہ کی جگہ پر بغیر اجازت مسجد بنانا اور اس میں نماز ادا کرنے کا کیا حکم ہے؟نیز اگر حکومت اس مسجد کو گرائے تو عوام الناس اس صورت میں کیا کرے؟
سوال میں مذکور جگہ کو گورنمنٹ نے اگر کسی محکمہ کے لیے مختص کیا ہو تو یہ زمین گورنمنٹ کی ملکیت ہے اس میں مسجد بنانا اگرچہ جائز ہے کیونکہ مسجد ومحکمہ دونوں ہی مفاد عامہ کےلیے ہیں اور ان کو تعمیر کرنا حکومت کے فرائض منصبی میں سے ہے اور اس میں نماز بھی ہو جاتی ہے، مگر اس کے لیے گورنمنٹ کی اجازت ضروری ہے بغیر اجازت ایسا کرنا خلاف قانون ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہے، تاہم اگر حکومت اس فرض منصبی میں کوتاہی کا مظاہرہ کرے اور آبادی میں تعمیر مسجد کی واقعی ضرورت ہونے کی بناء پر اہل خیر حضرات نے مسجد تعمیر کر لی ہو تو اس میں نماز پڑھنا بھی جائز ہے، جبکہ اس محکمہ کی ضرورت اگر مسجد سے بچی ہوئی جگہ سے پوری ہو سکتی ہو یا اس کے لیے جگہ کا انتظام ہو سکتا ہو تو حتی الامکان اس کے گرانے سے احتراز کرنا چاہیے، تاہم اگر یہ لکھ دیا جائے کہ یہ زمین کس محکمہ کے لیے مختص ہے؟ اور مسجد گرانے کی کیا وجہ ہے؟ اور اس جگہ مسلمانوں کی ضرورت کے لیے دوسری مساجد موجود ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ تو اس پر مکرر غور کیا جا سکتا ہے۔
ففی الفتاوى الهندية: (ومنها) الملك وقت الوقف حتى لو غصب أرضا فوقفها ثم اشتراها من مالكها ودفع الثمن إليه أو صالح على مال دفعه إليه لا تكون وقفا كذا في البحر الرائق(2/ 353)
وفی الفتاوى الهندية أرض وقف على مسجد والأرض بجنب ذلك المسجد وأرادوا أن يزيدوا في المسجد شيئا من الأرض جاز لكن يرفعوا الأمر إلى القاضي ليأذن لهم اھ (2/ 456)
وفی رد المحتار: تحت (قولہ وأرض مغصوبة أو للغیر) وفي شرح المنية للحلبي: بنى مسجدا في أرض غصب لا بأس بالصلاة فيه.
وفي الواقعات بنى مسجدا على سور المدينة لا ينبغي أن يصلي فيه؛ لأنه من حق العامة فلم يخلص لله تعالى كالمبني في أرض مغصوبة اهـ(1/ 381)