كیا مدرسہ كی زكوٰۃ كی رقم كو كسی شریعہ بینك میں جمع كرایا جاسكتا ہے؟ جو اس رقم كوكاروبار میں لگائے اور نفع و نقصان میں دونوں شریك ہوں تو كیا ایسا كرنا درست ہے؟
مدرسه میں چندہ دینے والوں کا اصل مقصد چونکہ اس چندہ کو اس کے مصرف تک پہنچانا ہے لہذا اس چندہ کی رقم کو تجارت میں لگانا جائز نہیں ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس طرح کرنے سے چندہ کی رقم مصرف تک پہنچانے میں بلاوجہ تاخیر ہوگی، البتہ اگر چندہ کی رقم مدرسہ کے فنڈ سے واقعۃً زائد ہو اور فی الحال اس کی کوئی ضرورت بھی نہ وہ تو پھر چند شرائط کے ساتھ اس زائد رقم کو تجارت میں لگانا جائز ہے، وہ چند شرائط درجِ ذیل ہیں:
(۱) چندہ دینے والوں کی طرف سے مدرسہ کے متولی کو اس کی اجازت ہو۔
(۲) مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی کی طرف سے بھی اس کی اجازت ہو، اگر کمیٹی نہ ہو تو اس کیلئے الگ سے کوئی کمیٹی تشکیل دے کر اس کی منظوری لی گئی ہو۔
(۳) جو رقم مدرسہ یا طلباء کے اخراجات کی ہو، اسے مدرسے میں خرچ کیا جائے، ایسی رقم کاروبار میں لگانا جائز ہی نہیں۔
(۴) زائد رقم کاروبار میں لگانا مدرسے کے مفاد میں ہو، یعنی اصل مقصد مدرسہ کے مال میں اضافہ ہو یا مدرسہ کی رقم ضائع ہونے سے محفوظ رکھنا ہو کسی ذاتی مقصد کیلئے نہ ہو۔
(۵) جو زائد رقم تجارت میں لگائی جائے اس کا نفع مدرسہ کی ضرورت اور مصالح ہی میں خرچ کیا جاتا ہو۔
(۶) زائد رقم ایسے کاروبار میں لگائی جائے جس میں نفع کا تقریباً یقین ہو۔
(۷) رقم اتنی مدت تک تجارت میں نہ لگائی جائے جس سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہو۔
مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ مدرسہ کے فنڈ کو تجارت میں لگانا جائز ہے، تاہم یہ بات واضح رہے کہ جب تک زکوٰۃ و صدقاتِ واجبہ کی رقم کی شرعی تملیک نہ ہوجائے اس وقت تک ان کو تجارت میں لگانا جائز نہیں ہوگا اور اس طرح زکوٰۃ بھی ادا نہیں ہوگی۔